انا

پچھلے دنوں ایک بھائی سے ملاقات ہوئی جو گھریلو مسائل کی وجہ سے بہت پریشان تھے۔ رشتے دار انکے والد کی کسی چھوٹی سی بات کی غلط تشریح کر کہ بُرا مان گئے اور ناراضگی بڑھتے بڑھتے لا تعلقی تک پہنچ گئی اور اس سب میں وہ بھائی نہ اِدھر کہ رہے نہ اُدھر کہ اور شدید زہنی اذیت سے گزرنا پڑ رہا۔

یہ کہانی اُس ایک بھائی کی نہیں۔ یہ کہانی ہمارے معاشرے کی ہے۔ یہ کہانی ہر گھر کی ہے۔ بڑے “بڑے” ہونے کی وجہ سے اپنے پاس ایک بڑا سا انا کونڈا (ego) رکھتے ہیں جسکی زد میں چھوٹے آتے ہیں۔ جس قوم کی آدھی زندگی ناراض رشتے داروں کو منانے میں صرف ہو جائے اور وہ مسئلے سلجھاتے گزر جائے جو انکے پیدا کیئے نہیں اُس قوم نے کیا ترقی کرنی؟ کتنے ہی نوجوان کتنی ہی عورتیں اپنی پوری زندگی سمجھوتا کر کہ اور پِس کر گزار رہے۔  انہوں نے اپنے بچوں کی کیا تربیت کرنی جنکو آدھی زندگی انا کی جنگ میں کھپا دیا جاتا ہے۔ پتہ نہیں آخر یہ سب کب تک چلے گا اور کتنی زندگیاں برباد کرتا جائے گا۔

Comments

Popular posts from this blog

We are educated to be rich not to be happy

شاخ نازک پہ جو آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا