تراویح کی نماز اور ہم۔۔۔!


نفل عبادات لگن ، جذبہ اور شوق سے تعلق رکھتی ہیں۔ نماز تراویح بھی  نفل عبادت ہونے کی بنا پر نہایت انہماک اور شوق سے ادا کرنےکی چیز ہے۔ نبی کریم ﷺ کی پوری زندگی میں صرف تین بار باجماعت ادائیگی کا ثبوت ملتا ہے۔ اس کے بعد آپﷺ نے فرض ٹھیرائے جانے کے خدشے کے پیش نظر باجماعت ادائیگی نہیں فرمائی۔ ہمارے معاشرے میں اس عبادت کے ساتھ جو مذاق کیا جاتا ہے، وہ نہایت افسوسناک ہے۔ ہر مسجد میں نو آموز حفاظ ِکرام تین تین پارے مع تراویح کے گھنٹہ سوا گھنٹہ میں مکمل کر کےنمازیوں سے" دادِ تحسین "پاتے ہیں۔ قرآن مجید کو خود قرآن مجید میں ترتیل سے پڑھنے کا حکم ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ " اے اوڑھ لپیٹ کر سونے والے! رات کو نماز میں کھڑے رہا کرو مگر کم، آدھی رات، یا اس سےکم کچھ کم کرلو، یا اس سے کچھ زیادہ بڑھادو، اور قرآن کو خوب ٹھیر ٹھیر کر پڑھو" (المزمل 1تا 4) قرآن مجید کو ٹھیر ٹھیر کر پڑھنا حکم خداوندی ہونے کے بموجب فرض ہے۔ جبکہ تراویح ایک نفل عبادت ہے، اور کسی نفلی عبادت کی ادائیگی کے وقت حکم واجبی کو روند کر جانا ہر گز کوئی مناسب طرز عمل نہیں ہے۔ پھر نماز تراویح کے دوران حفاظ کرام جس سرعت سے قراءت کرتے ہیں، "عوام" تو ثواب کی نیت سے گھنٹوں کھڑے رہتے ہیں، مگرتیز رفتاری کی تلاوت کرتے ہوئے "حکم ترتیل " کی خلاف ورزی کے ساتھ قراءت کے اصولوں کی جس طریقے سے پامالی ہوتی ہے، وہ بجائے خودایک المیہ ہے۔ یہ بات علماء کرام سے ہر گز مخفی نہیں کہ قراء ت کے دوران کس قسم کی غلطیوں سے نماز فاسد ہوتی ہے۔ جلدی میں پڑھنے کی وجہ سے سرزد ہونے والی ہر غلطی پر "فتح" دینا بھی ممکن نہیں ہوتا، مگر حقیقت یہ ہے کہ ن میں سے بعض غلطیاں ایسی ہوتی ہیں، جن سے معنی میں صریح فساد پیدا کرکے نماز کی صحت کو بھی یقینا مشکوک بنا دیتی ہیں۔
لہٰذا علماء کرام کی یہ ذمہ داری ہے کہ حفاظ کرام کو قرآن مجید ترتیل سے پڑھنے پر مجبور کریں۔ اور جس مسجد کے نمازی آہستہ اور ٹھیر ٹھیر کر پڑھنے کو پسند نہیں کرتے ، ان کے لیے ختم ِ قرآن کے بجائے "سادہ تراویح" ہی کا بندوبست کیا جائے۔ ورنہ اس کا وبال لا محالہ علماء کے سر پر پڑے گا، بے چارے نمازی تو لاعلمی کی وجہ سے مواخذے سے بچ سکتے ہیں، مگر اس سلسلے میں علماء کرام ضرور ماخوذ ہوں گے۔
 اساتذہ اور ماہرین فن کی طرف سے حفاظ کرام کے حفظ کی پختگی کے لیے ایک بار تراویح میں "سنانا" شرط ٹھیرائی جاتی ہے، اس لیے ہر حافظ قرآن اس طریقے سے "ختم القرآن" کا حریص ہوتا ہے۔
نماز تراویح جلدی پڑھنے کا رجحان خیبر پختونخواہ کے علاوہ  ملک کے کسی حصہ میں نہیں پایا جاتا ۔ دوسرے علاقوں میں عام طور پر 27 یا 29 دن کا "ختم " ہوتا ہے، حفاظ اور قراء روزانہ ایک یا سوا پارہ کی تلاوت نہایت ترتیل اور اہتمام سے کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہم چترالی اس ایک غلط روایت میں خیبر پختونخواہ کے دوسرے اضلاع کے لوگوں کے ساتھ مماثلت رکھتے ہیں۔

Comments

Popular posts from this blog

We are educated to be rich not to be happy

شاخ نازک پہ جو آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا